۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 391970
16 جولائی 2023 - 22:35
تصاویر/ مصنوعی ذہانت کے ذریعہ بنائی گئی کربلائے معلی کی  اگلے ایک ہزار سال بعد   کی  حیرت انگیز تصاویر

حوزہ/ ماہ محرم کی آمد ہے؛ بہتر ہےکہ ہم اس واقعے کے پس پردہ محرکات کے بارے میں سوچیں، فکر کریں کہ وہ کونسے عوامل تھے جس کے سبب رسول اکرم کے نواسے کو اتنی بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے لیکن بعض اسے دو شہزادوں کی جنگ قرار دیتے ہیں اور اس دردناک تاریخی واقعے کو بہت سادہ اور عام واقعہ بنانے کے درپے ہیں۔

تحریر: چمن آبادی

حوزہ نیوز ایجنسی| ماہ محرم کی آمد ہے؛ بہتر ہے کہ ہم اس واقعے کے پس پردہ محرکات کے بارے میں سوچیں، فکر کریں کہ وہ کونسے عوامل تھے جس کے سبب رسول اکرم کے نواسے کو اتنی بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے لیکن بعض اسے دو شہزادوں کی جنگ قرار دیتے ہیں اور اس دردناک تاریخی واقعے کو بہت سادہ اور عام واقعہ بنانے کے درپے ہیں۔

دس محرم اکسٹھ ہجری کے دن فرزند رسول خدا ص اپنے اصحاب سمیت کربلا کی تپتی صحرا میں نہایت بے دردی سے قتل کر دیے گئے۔ رسالت مآب ص کی رحلت کے پچاس برس نہیں گزرے تھے کہ آپ ہی کے اصحاب اور تابعین نے مل کر خاندان رسالت کو بے آب وگیاہ چٹیل میدان میں تین دن بھوکے پیاسے رکھ کر تہہ تیغ کر دیا؛ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ رسالت مآب ص کی رحلت کے چند دنوں کے اندر آپ کی لاڈلی بیٹی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر کو نذر آتش کر دیا گیا، جناب سیدہ فاطمہ س کو زد وکوب کیا اور تاریخ اسلام میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کیا تو آپ ص کی رحلت کے 50 برس بعد کربلا کا واقعہ رونما ہونا بہت زیادہ تعجب کا باعث نہیں۔

امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہما السّلام کی چار سالہ دور حکومت میں تین بڑی جنگیں مسلط کی گئیں، جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان۔ جنگ جمل میں حضرت علی ع کے مقابلے میں آنے والے لشکر کی کمانڈ حضرت عائشہ کر رہی تھی۔ جنگ صفین میں علی کے مد مقابل معاویہ بن ابی سفیان اور دیگر اصحاب تھے۔ جنگ نہروان میں بھی اصحاب وتابعین کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ ان تینوں جنگوں میں مجموعی طور پر ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ تہہ تیغ ہوگئے۔ طلحہ، زبیر، عمار یاسر سمیت بہت نامور شخصیات مارے گئے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ حادثہ کربلا بھی صفین و جمل و نہروان کے بھگوڑوں کی اولاد کا شاخسانہ ہے، کیونکہ تینوں جنگوں میں علی بن ابی طالب ع دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی تھی، بلکہ دوسرے الفاظ میں جنگ بدر، احد، خندق، صفین، جمل اور نہروان کے شکست خوردہ لوگوں نے محمد و علی کے آل سے انتقام لینے کا عزم بالجزم کر رکھا تھا، سو انہوں نے کربلا میں اپنا سارا غم و غصہ نکال لیا۔

سانحہ عاشورا کے وقوع سے پہلے رسول خدا ص کے سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبی ع کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ظلم روا رکھا گیا۔ زر و زور، طمع و لالچ، دھونس دھاندلی کے بل بوتے پر آپ کی فوج کے کمانڈر سمیت اہم لوگوں کو خرید لیا گیا۔ میدان جنگ میں امام حسن مجتبی ع کو تنہا کر کے صلح پر مجبور کیا۔ صلح کے بعد معاویہ بن ابو سفیان نے صلح نامے اور اس کی شرائط کو زیر پا ڈال کر اس کی بے حرمتی کی، اور ملاء عام میں اعلان کیا کہ ہم اس صلح پر عمل نہیں کرینگے۔ تاریخ نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کی کہ معاویہ نے اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہ کرنے کی شرط کو پاؤں تلے مسلتے ہوئے یزید جیسے فاسق وفاجر، زانی وبندر باز، شرابی وکبابی بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ اپنی زندگی میں یزید کے لیے لوگوں سے بیعت لی گئی اور یوں یزید لعین منبر رسول خدا ص پر آپ کا خلیفہ اور جانشین بن بیٹھا۔

یہ وہ دراڑیں تھیں جو رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے کچھ ہی عرصے میں امت اسلامیہ کے اندر ایجاد ہوئیں اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے اکسٹھ ہجری تک جا پہنچیں تو فرزند رسول خدا ص حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید لعین کو خلیفہ رسول ماننے سے انکار کرتے ہوئے اس کی بیعت سے احتراز کیا۔ یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو خط لکھا کہ "حسین بن علی سے میرے لیے بیعت لے لو۔ اگر اس نے بغیر کسی مزاحمت کے سر تسلیم خم کیا تو اسے آزاد چھوڑ دو اور انہیں کسی قسم کی آزار پہنچانے سے گریز کرو بلکہ اس کی عزت وتکریم کرو لیکن انہوں بیعت سے منہ موڑا تو ان کا سر قلم کرو"۔

ولید بن عقبہ نے امام حسین ع کو بلا کر سارا ماجرا بیان کیا تو سرکار دو عالم کے گود کے پروردہ فرزند نے یزید کی بیعت سے صاف الفاظ میں انکار کیا۔ امام حسین ع جانتے تھے کہ یزید لعین کی بیعت سے انکار کا کیا نتیجہ نکلے گا لیکن وارث انبیاء و اوصیاء کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ دین اسلام جس کی پرورش میں اپنے نانا رسول‏خدا ص، بابا علی مرتضٰی ع، مادر گرامی زہراء مرضیہ ع، اور بھائی حسن مجتبی ع نے خون جگر دیے ہوں اس سے لاتعلق رہیں۔

28 رجب المرجب کو اپنے نانا اور والدہ ماجدہ کی قبروں سے الوداع کیا اور اپنے خاندان کے افراد کو لیکر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ حج کے ایام میں دنیا بھر سے لوگ حج کی غرض سے مکہ پہنچ رہے تھے، خانہ خدا کے گرد طواف کر رہے تھےاور قربانی کرنے میں مصروف تھے لیکن فرزند کعبہ اپنے نانا کے لائے ہوئے دین کو بچانے کے لیے چراغ کے گرد گھومنے والے تتلی کی مانند دین اسلام کے گرد طواف کرنے اور صحرائے منا میں گوسفند کی قربانے کی بجائے صحرائے کربلا میں بھائیوں اور بیٹوں کی قربانی پیش کرنے کے لیے ارض نینوا کی سمت حرکت کی۔

یزید لعین کی بیعت سے انکار پر رسول اللہ کے خاندان کا کربلا کی لق ودق صحرا میں گھیراؤ کیا گیا۔ شام و کوفہ سے لشکر کے لشکر میدان کربلا میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ صبح عاشورا منائے کربلا میں قربانیاں پیش ہونے لگیں، ماؤں نے بیٹوں، بہنوں نے بھائیوں، بیویوں نے اپنے شوہروں کو دین اسلام کی خاطر دشمنان دین کی طرف یکے بعد دیگرے روانہ کیا۔ عصر عاشور جب سب اعوان وانصار ختم ہوگئے تو فرزند رسول‏خدا ع، پیغمبر خدا ص کے عمامہ، اور آپ کے لباس زیب تن کر کے میدان میں تشریف لائے اور ذبح عظیم کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ رہتی دنیا تک ایسی مثال نہیں ملتی اور اپنا سر دے کر اسلام کا سر ایسا بلند کیا کہ تا قیامت کوئی بھی ظالم و جابر جتنا بھی ظلم کرئے لیکن اسلام سے ٹکرانے کی جرأت نہ کر سکے گا۔

محرم الحرام کا جلوس، عزاداری، سینہ کوبی، نذر ونیاز سب اسی عظیم مشن کو لیکر آگے بڑھنے کا عہد ہے، لوگ اپنے جمع پونجی خرچ کر کے مجالس ومحافل منعقد کراتے ہیں تاکہ اپنے امام سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنے زمانے کے یزید، ابن زیاد، شمر کی بیعت ہرگز نہیں کرینگے بلکہ آپ کا بلند کردہ نعرے مثلی لا یبایع مثل یزید کو لیکر مہدی زمان علیہ السّلام کی حکومت کے قیام کے لیے اپنی جان سے گزرنے کے لیے تیار رہیں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .